اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ کورونا کے ظاہر ہونے کے بعد بن سلمانی ذرائع نے ابتداء میں وسیع سطح پر علاقائی اور عالمی سطح پر ایران کو اس وائرس کی جنم بومی کے متعارف کروانے کی ناکام کوشش کی اور سعودی ریالات سے وابستہ کچھ جنوبی ایشیائی تکفیری-صہیونی ٹولوں نے بھی بنی سعود کا پورا پورا ساتھ دیا، گوکہ انہیں ہر لحاظ سے خفت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق، شام اور یمن میں شکست اور بحرین میں رسوائی کے بعد گویا سعودیوں کو ایک موقع اور ملا تھا کہ کورونا وائرس کی آڑ میں سعودی شہزادوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ، ایران کو بھی تنہا کرنے کے سلسلے میں بخت آزمائی کریں اور یوں نے انھوں نے یہود و نصاری کی خوشنودی کمانے کے جالیس سال سے جاری سازش کے تسلسل میں اپنی ذمہ داری نبھانے کی بہتیری کوشش کی مگر در حقیقت ان کی یہ ذلیلانہ سعی کا نتیجہ بھی اڑتی ہوئی دھول سے زیادہ کچھ نہ رہا۔
کورونا کی جیاتیاتی اور ابلاغیاتی وباء پھیل گئی تو سعودی حکومت اور اس سے وابستہ نام نہاد ـ اجرتی اور غیر اجرتی ـ قلمکار، صحافی اور ذرائع ابلاغ کو جہاں بھی کورونا کا کوئی کیس نظر آیا، سب نے مل کر اسے ایران سے نسبت دینے کی سعی وافر کی اور ساتھ ہی بنی سعود کے زير قبضہ مقدس سرزمین اور آس پاس کے عرب اور غیر عرب رفقائے کار کی ریاستوں میں کورونا وائرس کی جولانیوں سے متعلق خبروں کو وسیع سطح پر سینسر کیا گیا البتہ خاص طور پر واضح رہے کہ سعودیوں نے اپنے آقا اور مالک امریکہ اور اس کے صدر مسٹر ٹرمپ کی پردہ داری کو ہر چیز ـ حتی کہ اپنے اندرونی حالات ـ پر بھی مقدم رکھا جبکہ ٹرمپ نے بھی اپنے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو چھپائے رکھنے کی اپنی سی کوشش کو جاری رکھا تھا۔ سعودیوں نے امریکہ کی طرف سے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد بھی، اس ملک میں پھیلنے والی بیماری کو غیر اہم قرار دینے کی کوشش جاری رکھی جو خود ذلت و خفت ایک ایک بڑی دلیل ہے۔
لیکن سعودیوں نے ایک بار پھر اپنے دروغ گوئی کی عمارت کو غیر معقول آرزؤوں اور جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ یہ عمارت بھی اس وقت زمین پر آرہی جب کورونا کی عالمگیری کا عالمی سطح پر اعتراف ہوا اور معلوم ہوا کہ سعودی ذرائع محض عرب اور مسلم رائے عامہ کے نزدیک اپنے آقا امریکہ کی پردہ داری پر مامور تھے مگر اس میدان میں بھی ان ذرائع اور ان کے مالک سعودیوں کی اخلاقی گراوٹ اور رسوا کن شکست طشت از بام ہوئی اور امریکہ نے نہ صرف اپنے ملک میں کورونا کے وسیع پھیلاؤ کا اعتراف اور ٹرمپ نے قومی ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔
اب سعودی ذرائع ـ جنہوں نے امریکی مفادات اور خاص طور پر ٹرمپ کی ہمہ جہت وکالت کا بیڑا اٹھایا ہے ـ کا مشن امریکہ میں قومی ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد محدود ہوگیا اور ایسے حال کہ میں امریکہ میں مسٹر ٹرمپ کے طبی معائنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور ان کے کرونا میں مبتلا ہونے کی متعدد نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں، ان ذرائع نے امریکیوں کے اس مطالبے کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ٹرمپ کی صحت و سلامتی پر زور دینا شروع کیا ہے اور اب وہ مسلسل ٹرمپ کی صحت کے گیت گا رہے ہیں!
البتہ کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ بنی سعود کے ذرائع کو ٹرمپ سے زیادہ بن سلمان کی حکومت کے مستقبل کی فکر لاحق ہے اور وہ ٹرمپ کو بن سلمان کی بادشاہت کی ضمانت سمجھتے ہیں ـ اور وہابی فرقے کے ظاہری عقائد کر برعکس ـ جو اللہ کے سوا کسی بندے سے مدد مانگنے کو شرک قرار دیتے ہیں ـ اللہ کے بدترین دشمن سے اپنی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی امید ہے کہ کسی دن امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ جائے اور اس جنگ کا پھل بنی سعود کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے؛ گوکہ اس صورت میں بھی شیر دار گائے ہی کو امریکی افواج کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے اور اگر یہ بھی ممکن ہے کہ بنی سعود کو اپنا وجود ہی امریکہ کے لئے قربان کرنا پڑے۔
بنی سعود کے ذرائع ابلاغ اسی تناظر میں عراق کے موجودہ ایام کے واقعات اور امریکی اڈوں پر عراقیوں کے حملوں کو ایران سے نسبت دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں؛ گوکہ کورونا، ایران اور عراق کے خلاف تشہیری مہم اور سعودیوں کے آقا مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی صحت و سلامتی کی دیوانہ وار خواہش کے سائے میں روس کے ساتھ تیل کی قیمتوں کے تنازعے میں الجھ کر تیل کی قیمتوں کو انتہائی حد تک گرانے ـ اور امریکہ کو زبردست معاشی دھچکہ لگانے ـ نیز اندرون ملک بن سلمان کے ہاتھوں درجنوں سعودی شہزادوں کی گرفتاری جیسے مسائل سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانا بھی اس وقت کے سعودی مقاصد میں سرفہرست ہے۔
اب منتظر رہ کر دیکھنا یہ ہے کہ گنجا بن سلمان کب تک اپنی خلیری بہن [ٹرمپ] کی زلف خمدار پر فخر و اعتزاز کا سلسلہ جاری رکھ سکے گا اور یقینا اس حقیقت کا بھی انتظار کرنا ہے کہ دو ہفتوں میں بنی سعود کے خاتمے کی پیشگوئی کرنے والی زلف خمدار کی مالک خلیری بہن نے بن سلمان کے خاتمے کی تاریخ (expiry date) کب تک مقرر کررکھی ہے؟ کیونکہ امریکیوں کی طے شدہ پالیسی یہی ہے کہ ہر شخص کی افادیت کے لئے ایک خاص عرصے اور ہر شخص کے لئے ایک خاص مشن کا تعین کرتے ہیں اور جب مشن پورا ہوجائے اور مقررہ عرصہ اختتام پذیر ہوجائے تو اپنے اس ایجنٹ کا کام تمام کردیتے ہیں اور اس مسئلے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخوذ از: العالم ویب گاہ
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
15 مارچ 2020 - 05:09
News ID: 1017479

صرف بن سلمانی ذرائع ابلاغ پر ایک خصوصی نظر ڈال کر ہی ٹرمپ اور امریکہ سے اس شخص اور سعودی حکومت کی نسبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ظہور پذیری کے بعد مزید جاذب نظر بن چکا ہے۔